جمعرات، 15 دسمبر، 2016




















شہد میں لیموں کے چند قطرے ڈال کر جسم کے اس حصے پر لگائیں تو نتیجہ دیکھ کر آپ خود بھی دنگ رہ جائیں گے

لندن(نیوزڈیسک) چہرے پر بالوں کی وجہ سے انسان کی خوبصورتی ماند پڑجاتی ہے۔ مرد وں کے لئے تو یہ کوئی مشکل چیز نہیں ہوتی لیکن خواتین اس کی وجہ سے پریشانی کا شکا ر رہتی ہیں۔چہرے کو بالوں سے پاک کرنے کے لئے وہ کئی طرح کے طریقے آزماتی ہیں لیکن کچھ طریقے ایسے ہوتے ہیں جن سے فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہونے لگتا ہے۔اگر آپ چہرے کے بالوں کی وجہ سے پریشان ہیں تو ذیل میں بتائے گئے طریقے سے آپ ان سے نجات پاسکتے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ اس طریقے کا کوئی سائیڈ ایفکٹ بھی نہیں ہوگا۔آئیے آپ کو یہ قدرتی طریقہ بتاتے ہیں۔
1۔ایک بڑا چمچ شہد اور چند قطرے لیموں مکس کریں۔
2۔اب اسے تمام چہرے پر ملیں۔
3۔اسے 15منٹ تک لگارہنے دیں اور پھر دھولیں ۔
4۔یہ عمل ہفتے میں دو سے تین باردہرائیں اور چار ہفتے تک جاری رکھیں۔
آپ دیکھیں گے کہ آپ کا چہرہ تروتازہ اور بالوں سے پاک ہوچکا ہے۔

صحت کے بارے میں وہ باتیں جو درست نہیں لیکن پھر بھی ہم ان پر عمل کرتے ہیں, آپ بھی جانئے اور اپنی زندگی کو آسان بنائیں


نیویارک(نیوزڈیسک) درست نہ ہونے کے باوجود صحت کے حوالے سے کچھ باتیں اس قدر شدومد سے کی جاتی ہیں کہ تحقیق کار خود بھی حیران ہوتے ہیں ۔آئیے آپ کو ایسی ہی کچھ باتوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔
دن میں 8گلاس پانی پئیں
اکثر یہ بات کہی جاتی ہے کہ صحت مند رہنے کے لئے دن میں کم از کم 8گلاس پانی پینا چاہیے۔اب بندے کو پیاس نہ بھی لگی ہوتو وہ پانی پی پی کر ہلکان ہوجاتا ہے لیکن ماہریں صحت کا کہنا ہے کہ حقیقت میں اس بات کا سچائی سے کوئی تعلق نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہم دن میں کئی چیزیں ایسی کھاتے ہیں جن میں مائع کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے اور ہمارے جسم کو پانی ملتا رہتا ہے لہذا بلاوجہ پانی کا استعمال بڑھا نہیں دینا چاہیے۔اگر پیشاب کی رنگت پیلی ہو تو اس صورت میں پانی کی مقدار بڑھائیں ورنہ پانی پی کر پیٹ کو بھاری نہ کریں۔
انڈے دل کے لئے برے ہیں
دن میں ایک یا دو انڈے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ دل کے لئے بالکل بھی برے نہیں ہوتے ، ان میں موجود اومیگا تھری دل کی بیماری کو کم کرتے ہیں۔ اگر آپ ابھی بھی انڈہ کھانے سے ڈر رہے ہیں تو اس کی زردی نہ کھائیں کہ اس میں کولیسٹرول پایا جاتا ہے لیکن سفیدی ضرور کھائیں ۔
سردی کی وجہ سے زکام ہوتا ہے
ایسا بالکل نہیں ہوتا،آپ چاہیں تو آزماکر دیکھ لیں۔زکام ہمیشہ وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے، جب بھی ہمارے جسم میں یہ داخل ہوتا ہے تو زکام ہوجاتا ہے۔ایک تحقیق میں لوگوں کو یخ بستہ موسم میں ٹھہرایا گیا اور ان میںسے کسی کو بھی زکام نہیں ہوا بلکہ ان کا مدافعتی نظام زیادہ بہتر طریقے سے کام کرنے لگا۔
سبز بلغم کامطلب انفیکشن ہے
ضروری نہیں کہ ہر سبز بلغم کی وجہ انفیکشن ہے کیونکہ کچھ بیکٹیریا ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بلغم سبز ہوجاتا ہے۔ لیب ٹیسٹ میں یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ چند بیکٹیریا کی وجہ سے بلغم سبز ہوجاتی ہے لیکن یہ انفیکشن کی وجہ سے نہیں ہوتا۔
انگلیوں کے کڑاکے نکالنا
اکثر لوگ یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ انگلیوں کے چٹاک نکالنے سے جوڑوں کا درد ہوجاتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جوڑوں کا درد ایک بیماری ہے جس کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں لیکن انگلیوں کے کڑاکے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔

ہرایک رُخ سے ہے کامِل، حضور ؐ کی سیرت

رب ذوالجلال نے کائنات کی مختلف اشیاء میں ایک کشش پیدا کردی ہے۔ اگر یہ کشش دو جان داروں کے درمیان ہو تو اسے میلان کہتے ہیں۔ یہی میلان جب زیادہ ہوجاتا ہے تو محبّت کہلاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب بیج کو زمین میں بویا جائے تو وہ زمین کے اندر مستور ہوجاتا ہے، اس پر بارش پڑتی ہے، آفتاب چمکتا ہے تو پھر وہ اُگتا ہے اور اس میں خوش نما پھول اور خوش ذائقہ پھل لگتے ہیں۔ اسی طرح جب محبّت کا بیج دل کی زمین میں پڑتا ہے تو یہ نشو و نما پاتا ہے پھر کیفیات کے پھل پھول اور برگ و بار اس میں اُگتے ہیں۔


قاضی محمد سلیمان منصور پوری فرماتے ہیں: ’’ محبّت ہی قوّت قلب ہے، محبّت ہی غذائے روح ہے، محبّت ہی قرۃ العین ہے، محبّت ہی حیات الابدان، دل کی زندگی، زندگی کی کام یابی بل کہ کام یابی کو دوام بخشنے والی ہے، غرض محبّت ہی سب کچھ ہے۔‘‘
خواجہ بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں: ’’ محبّت یہ ہے کہ اپنے کثیر کو قلیل جانے اور محبوب کے قلیل کو بھی کثیر جانے۔‘‘
بعض محققین کا خیال ہے کہ محبّت کی تعریف نہیں کی جاسکتی، اس کی یافت محض وجدان ہی سے ہوسکتی ہے۔ لہٰذا محبّت کی تعریف خود اس کا وجود ہے۔ چوں کہ محبّت ایک جذبہ ہے اور جذبے کا ادراک ذوق وجدان سے ہوسکتا ہے، نہ کہ عقل سے۔ اسی لیے خواجہ رازیؒ فرماتے ہیں: ’’ محبّت ایک حال ہے اس کی تعبیر الفاظ سے نہیں ہوسکتی۔‘‘
اﷲ تعالیٰ اپنی ذات میں یکتا، منفرد، بے مثل، لاثانی اور صفات میں کامل، جامع اور بے مثال ہے۔ آسمانوں اور زمینوں کا اور اس کے جمیع خزانوں کا تن تنہا مالک ہے۔ اس نے اپنی مخلوقات خاص کر انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ پھر حضرت انسان پر تو نعمتوں کی موسلادھار بارش برسادی۔ ہدایت، اعضائے جسمانی، سماعت، بصارت، گویائی، عقل، صورت و سیرت، صحت، عزت، غرض ضروریات زندگی اور بشری تقاضوں کے اعتبار سے ہر نعمت سے سرفراز فرمایا۔ اس سب کے باوجود حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنی بے شمار نعمتوں کے عطا کیے جانے کے بعد بھی احسان نہیں جتلایا گیا، تاہم ایک نعمت دے کر احسان جتلایا گیا۔
ارشاد خداوندی ہے: ’’ اﷲ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان فرمایا کہ ان میں ان ہی میں سے ایک رسولؐ کو بھیجا۔‘‘ ( سورۃ آل عمران )
یقینا اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی آخرالزماںؐ کی تشریف آوری انعام و احسان الٰہی ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ اسے جس طرح انعام بھاتا ہے، اسی طرح سے انعام دینے والے سے بھی محبّت ہوا کرتی ہے۔ پس نتیجتاً اہل ایمان کو اﷲ تعالیٰ سے بھی بے انتہا محبّت ہے اور اس کے محبوبؐ سے بھی شدید محبّت ہے۔ جیسا کہ اس کی تائید اس حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے : ’’اﷲ تعالیٰ سے محبّت کرو کہ اس نے تمہیں نعمتیں دیں اور چوں کہ اﷲ تعالیٰ کو مجھ سے محبّت ہے لہٰذا تم بھی مجھ سے محبّت کرو۔‘‘
جو حُب رسولؐ سے سرشار ہوگا، وہی صحیح معنوں میں انعامات الٰہی کی قدر کرنے والا قرار پائے گا۔ جو بھی حُب رسولؐ سے سرشار ہوتا ہے بحر وبر اس کے دامن کے ایک کونے میں سما جاتے ہیں۔ نبیؐ سے نسبت نصیب ہونا درحقیقت نسبت الٰہی کا حاصل ہونا ہے۔
’’ اے محبوب (ﷺ) آپ فرما دیجیے کہ اگر تم اﷲ سے محبّت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اﷲ تم سے محبّت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا۔‘‘
( سورۃ آل عمران )
نبی کریمؐ کی محبّت دنیوی اور اخروی کام یابیوں کے حصول کی کلید ہے۔ اس سے رحمت الٰہی موسلادھار بارش کی طرح برستی ہے، بل کہ یہی سعادت مند ہونے کی نشانی ہے۔ اگر مسلمان کے دل میں اﷲ جل شانہ اور سید الانبیاؐ کی محبّت اپنی تمام تر رعنائیوں اور تابانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوجائے تو پھر ہٖفت اقلیم بھی اس کے سامنے ہیچ ہے۔
محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ ؐ کی ذات بابرکات تمام جہانوں کے لیے رحمت بن کر آئی۔ وہ محسن انسانیتؐ جس نے مذہبی اداروں میں شخصیت پرستی کے بجائے خداپرستی قائم کی۔ جس نے اعتقادات کی توہمات کے بجائے حقیقت پر بنیاد رکھی۔ جس نے کائنات کو مسخر کرنے کا سبق دیا۔ جس نے سیاسیات میں نسلی و موروثی بادشاہت کی بجائے شورائی نظام کا راستہ دکھایا۔ جس نے علم کی دنیا میں خیال آرائی کے بجائے حقیقت نگاری کی طرح ڈالی۔
جس نے سماج کی تنظیم کے لیے ظلم کی بجائے عدل کی تعلیم دی۔ آپ ؐ نے انسانیت کی جھولی میں اخلاق عظیم کے جواہرات بھرے۔ مظلوم کو ظالم سے نجات دلائی۔ جاہل کو علم سے آراستہ کیا۔ اونٹ چرانے والے ہدی خوانوں کو انسانیت کا پاسبان بنایا۔ جو دنیا کے دیوانے تھے انہیں اﷲ کا سودائی بنایا۔ جو نفس پرست تھے انہیں خداپرست بنایا۔ جو مجاور تھے انھیں مجاہد بنایا۔ جو آپس میں غضب ناک تھے انہیں رحم کرنے والا بنایا۔ سراپا گفتار کو کردار کا غازی بنایا۔ اس خاصۂ خاصانِ رسلؐ کے ساتھ محبّت و عشق کا ہونا، ایمان کی شرائط میں سے ہے۔
انسان کی فطرت ہے کہ وہ دوسروں کے خصائص و کمال، حسن و جمال، محاسن اور کردار سے متاثر ہوکر ان سے محبّت کرنے لگتا ہے۔ فخر رسلؐ کو رب کائنات نے وہ بلند شان، مقام اور مرتبہ عطا کیا کہ آپؐ کو ہر خوبی، اکمل ترین عطا کی گئی۔ اسی وجہ سے ہر مومن اپنے پیارے تاج دار مدینہؐ سے بے ساختہ محبّت و پیار کرتا ہے۔ قرآن مجید نبی اکرمؐ کے کمال و جمال پر سب سے بڑا گواہ ہے۔ جس طرح قرآن مجید کے علمی عجائبات کی انتہا نہیں، اسی طرح سیرت نبویؐ کے عملی عجائبات کی حد نہیں۔ ایسی مبارک ہستی سے محبّت ہونا فطری ہے۔
کسی سے محبّت اور اس پر فریفتہ ہونے کی ایک وجہ حسن و جمال بھی ہے۔ انسان خوب صورت شخصیت کو دیکھے تو دل بے اختیار اس کی طرف کھنچ جاتا ہے۔ نبی اکرمؐ کو اﷲ تعالیٰ نے ایسا حسن و جمال عطا کیا تھا کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ حدیث میں ہے ’’اﷲ تعالیٰ خوب صورت ہیں اور خوب صورتی کو پسند کرتے ہیں۔‘‘ جب ذات الٰہی خوب صورتی کو پسند فرماتی ہے تو جس ذات کو اس نے اپنا محبوب بنایا، اس ذات کو کتنا حسن و جمال عطا کیا ہوگا۔
آپؐ اﷲ کے حبیب ہیں، روز قیامت علَمِِ حمد آپؐ کے ہاتھ ہوگا جس کے سائے میں جملہ انبیائے کرامؑ ہوں گے۔ آپؐشافع  محشر ہیں، آپؐ اور آپؐ کی امت سب سے پہلے جنت میں داخلے کے اعزاز سے مشرف ہوگی، اولین و آخرین میں آپؐ ہی سب سے زیادہ مکرم و محترم ہیں۔ آپ خاتم النبیینؐ ہیں۔ دنیا کو اعلیٰ اخلاق کا درس دینے کے لیے آپؐ مبعوث ہوئے۔ عربی ضرب المثل ہے۔
’’انسان احسان کا غلام ہوجاتا ہے۔‘‘ بہ الفاظ دیگر انسانی ہی نہیں حیوانی فطرت بھی ہے کہ جو ان پر احسان کرے اس سے محبّت کرتے ہیں۔ امت پر نبیؐ کے اتنے اور اس قدر احسانات ہیں کہ ان کا احاطہ مشکل ہے۔ نبی اکرمؐ مومنین کے ساتھ حد درجہ شفقت کرنے والے ہیں، آپؐ کی ہم دردی اور دل سوزی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آپؐ ساری رات عبادت کرتے اور اپنی گناہ گار امت کے لیے دعائیں مانگتے حتیٰ کہ قدم مبارک پر ورم آجاتا۔ آپؐ قاسم العلوم و البرکات ہیں، نبی اکرمؐ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو علم و معارف اور انوار و برکات ملتے وہ آپؐ صحابہ کرامؓ میں منتقل فرما دیا کرتے۔
ہمیں بھی نبی کریمؐ کے احسانات کو یاد رکھتے ہوئے آپؐ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے کہ بس یہی دین اسلام ہے۔

واَحسنْ منکَ لم ترَ قطُّ عِینیِ


وَاجمَل مِنکَ لَم تَلِدِ النّسَاء ُ
خلقتَ مُبرء ً مِن کُلّ عِیبٍ
کأنکَ قد خُلقتَ ما تشاء ُ
آپؐ سے حسین تر کوئی دیکھا نہیں گیا
آپؐ سا جمیل بھی کسی ماں نے نہیں جنا
آپؐ کو ہر عیب سے بری پیدا کیا گیا
گویا آپؐ کو آپ کی چاہت کے مطابق تخلیق کیا گیا
(شرح دیوان حسان بن ثابتؓ بعد الرحمن البرقوقی)

عرب کے بلند پایہ فصیح و بلیغ شاعر اور جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابتؓ نے یہ شعر جس ہستی کی شان ِ اقدس میں کہا ہے وہ انبیا و رسلؑ کی کاہ کشاں کا سب سے چمکتا روشن ستارہ ہیں۔ وہ مبارک ہستی جو وجۂ کائنات اور جانِ کائنات ہیں اور ان کے آنے کی خوش خبری ستر ماؤں سے زیادہ مہربان رب اپنی روشن کتاب میں ان خوش کن الفاظ میں دیتا ہے۔
ترجمہ: ’’بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے، تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مومنین پر کمال مہربان، پھر بھی اگر وہ منہ پھیریں تو کہہ دے کافی ہے مجھ کو اﷲ، کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور وہی مالک ہے عرش عظیم کا۔‘‘
(سورۃ التوبہ آیات 129-128)
یوں تو ہر پیغمبر اعلیٰ اوصاف، پاکیزگی و تقویٰ کا اعلیٰ نمونہ ہوتا ہے۔ بیشتر انبیاؑ سے کوئی ایک وصف خاص منسوب کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت یوسف ؑ کا حسن، حضرت داؤد ؑ کا لحن، حضرت آدم و نوح ؑ کی قامت، حضرت سلیمان ؑ کی عظیم الشان سلطنت، حضرت موسیٰ ؑ رب تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے تو کلیم اﷲ کہلائے اور حضرت ابراہیم ؑ اپنے حلم و برد باری اور تقویٰ کی وجہ سے خلیل اﷲ قرار پائے، لیکن دنیائے انسانیت کی تاریخ میں جو ہستی اعلیٰ اقدار و اوصاف سے مزین ظاہری اور باطنی حسن کا حسین امتزاج کہلائی، وہ ہمارے رسول اقدس ﷺ کی ذات مبارک ہے، جن کے ظاہری حسن کے بارے میں جلیل القدر صحابہؓ یوں روایت کرتے ہیں:
حضرت انس بن مالک ؓ ’’رسول اﷲ ﷺ کا رنگ مبارک سفید روشن تھا اور آپؐ کے چہرۂ اقدس پر پسینے کی بوندیں یوں معلوم ہوتی تھیں گویا موتی جڑ دیے گئے ہوں، جب آپؐ چلتے تو عاجزی اور تیز رفتاری سے قدمِ مبارک اٹھاتے، میں نے کسی قسم کا کوئی ریشم ایسا نہیں چُھوا جو آپؐ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو، میں نے دنیا میں ایسی کوئی خوش بو نہیں سونگھی، جو آپؐ کی خوش بو سے زیادہ عمدہ اور اثرانگیز ہو۔‘‘
(مسند احمد باقی مسند الانصار، رقم الحدیث 12902)
حضرت علیؓ نے فرمایا، آپؐ کی تعریف کرنے والے کہہ دیا کرتے تھے کہ ’’حسن و جمال کا ایسا نمونہ نہ ہم نے پہلے کبھی دیکھا اور نہ بعد میں کبھی دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد رقم الحدیث 706)
یہ عظیم المرتبت جماعت ِ اصحابؓ جو شعری ذوق، فصاحت و بلاغت میں کمال رکھتی تھی، اپنے آپ کو اس نہج پر دیکھتی کہ حضورؐ کے ظاہری جمال کو سراہنے کے لیے کاملیت سے نیچے کوئی حرف نہیں، کیوں کہ حضور سرور کائناتؐ کا ہر نقشِ خوب صورتی و کمال کی معراج پر ہے۔ اسی لیے تو حسان بن ثابتؓ آپؐ کے لیے ہر عیب سے بری، حسین تر کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
رب العزت نے اپنے حبیبؐ کو ظاہری و باطنی جمال کی معراج پر رکھا ہے۔ اسی لیے تو سیرت رسولؐ کو سر بہ سر قرآن، اسوۂ حسنہ سے تعبیر کیا گیا اور فرمایا ’’اور ہم نے تمہارے ذکر کو بلند کردیا۔‘‘
سیرت طیّبہؐ، پیروی کے لیے ہر لحاظ سے مکمل نمونہ ہے۔ حیاتِ نبویؐ انسانی زندگی کے ہر شعبے اور ہر پہلو کے لیے تابندہ مثال ہے۔ اس بات کا اعتراف اغیار نے بھی کیا۔ آج کی نام نہاد مہذب دنیا جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علم بردار کہتی ہے، مگر آج بھی کئی قطعے ایسے ہیں جہاں کئی شعبہ ہائے زندگی میں نسلی، لسانی، گروہی اور صنعتی تفاوت کی بناء پر عدم مساوات جاری ہے۔
ہمارے نبی ﷺ کے دین کو دنیا ’’اسلام‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ اسلام وہ دین نہیں، جس میں عورت میراث، کاروبار، ذاتی جائیداد، نان و نفقے سے محروم ہو، جہاں عورت کو جبراً مرے ہوئے شوہر کے ساتھ زندہ جلا ڈالا جائے یا بیوہ کے بال مونڈھ کر ساری عمر زندہ لاش کی طرح جینے پر مجبور کردیا جائے اور ہر قدم، خوشی و غم کے مواقع پر اسے منحوس قرار دیا جائے۔ یہ اسلام ہے امن و آشتی کا پرچارک، رحمتوں و برکتوں والے کا دین، جو خود چار بیٹیوں کا والد گرامی۔ آج سے دو، تین سو سال پہلے کا مغربی مفکر عورت کو انسانی وجود ماننے پر تیار ہی نہیں تھا، جب کہ ہمارے نبیؐ چودہ سو سال پہلے پورے رسان سے عورت کو رحمت قرار دیتے ہیں، وہ اپنی بیٹیوں کی ہر خوشی اور غم میں شریک، ان کو پروان چڑھانے والے، ان کے وصال پر نم ناک ہوجانے والے۔
مغرب کی نام نہاد تہذیب میرحجازؐ کے اخلاق و کردار کی بلندیوں کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی، کیوں کہ فکر و عمل کے مکمل جوہر کا یہ اسوۂ حسنہ الہامی و روحانی طاقت کا مظہر ہے۔ دنیا میں کوئی بشر ایسا نہیں، جو بہ یک وقت ایک مذہبی راہ نما، داعی، مدبّر، حکم راں، سپاہ سالار، دلیر، شجاع، فیاض، صادق و امین ہو، فصیح البیان خطیب ایسا کہ جس پر فنِ خطابت نازاں، بہ یک وقت بوریا نشین، عرشوں کا مہمان اور قاب قوسین او ادنیٰ کا صاحب اسرار ہو۔
جس کی ہر ایک ادا کو خالق خود اپنے کلام میں یوں بیان کرے کہ دل اس کی حُب میں بے قرار ہوجائے۔ کوئی مذہبی داعی ایسا نہیں جس نے خلفائے راشدینؓ جیسے عالی مقام و باوصف حکم راں یکے بعد دیگرے وقت کی لڑی میں پروئے ہوں۔ کوئی ایک حکم راں بھی ایسا نہیں، جس نے اپنی حیات میں سوا لاکھ کے قریب ایسے پرتاثیر سفارت کار تیار کیے ہوں کہ وہ جہاں بھی جائیں اس کے پیغام کی ضو سے بحر و بر اُجالیں۔
تاریخ کا چہرہ عاری ہے، ایسے سپہ سالار کے نام سے، جس کے سپاہی دین کے احیا کی خاطر سورماؤں سے لڑ پڑیں اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیں۔ دین محمدیؐ ہی وہ واحد دین ہے، جس میں پیغمبر اسلامؐ کے سرخ و سفید رنگت والے عالی نسب قریشی صحابہؓ حبشہ سے آنے والے صحابی حضرت بلالؓ کو ’’یاسیدی‘‘ (اے میرے آقا) کہہ کر پکارتے ہیں۔ جزا و غنیمت میں بلالؓ و عمرؓ برابر کا حصہ پاتے ہیں۔
حالاںکہ ایک عالی نسب گل رنگ، آزاد، قرابت دار، جب کہ دوسرا حبشہ سے آنے والا غلام، ہاں اگر کوئی بڑھنا چاہتا ہے تو کوئی مادی معیار نہیں، محض تقویٰ کی بنیاد پر۔ یہ وہ دین نہیں جس میں برہمن، کھشتری اور شودر کے لیے جداگانہ نظام حیات ہو اور شودر برہمن کی غلاظت ہاتھوں سے اٹھانے پر مجبور کیا جائے۔ دنیا میں سماجی فلاح و بہبود کے کے کام کرنے والے بہت لوگ ہیں، مگر سب کسی نہ کسی صورت میں اس کا خراج وصول کرتے ہیں۔
وہ واحد ایسی ہستی جو انسانی فلاح و بہبود کا پیغام دیتے ہوئے طائف میں پتھر سہے اور پھر دعا گو ہو، جس کی گردن پر حرم میں چادر کسی جائے اور وہ بددعا نہ دے، ظلم و ستم کیا جائے، سوشل بائیکاٹ کیا جائے مگر اس کے پایۂ استقلال میں جنبش تک نہ ہو۔ وہ عالی مرتبتؐ اپنے غلاموں کے ساتھ مل کر تعمیراتی کاموں میں حصہ لیں۔ عالم نزع میں ہر انسان کو اپنے ہی نفس کا خیال ہوتا ہے مگر وہ اس وقت بھی انسانی حقوق و اقدار کا درس دیتے ہیں کہ اپنے زیردست سے اچھا سلوک کرنا۔
رسول کریمؐ کا دیا ہوا خطبہ حجۃ الوداع، دنیائے حقوق انسانی کا اعلیٰ اور جامع ترین منشور مانا جاتا ہے۔ رب تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نبیؐ مومنوں سے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں۔
اس فرمان باری تعالیٰ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے بدن کے ہر ذرے، ہمارے لہو کی ہر بوند، ہماری حیات کے ہر لمحے اور ہماری آتی جاتی ہر سانس پر ہم سے زیادہ ہمارے نبیؐ کا حق ہے۔ اس حق کا اصل حق تو ہم ادا کرنے سے قاصر ہیں مگر اتنا تو کرسکتے ہیں کہ جب ہمارے رسولؐ کے متعلق ہرزہ سرائیاں ہوں، ان کی شان میں ہجوگوئی کی جائے تو مسلمان اپنی گفتار، کردار و قلمی جہاد کے ذریعے باطل کی اٹھائی ہوئی ان ہرزہ سرائی کی لہروں کو ان کے اصل کی جانب دھکیل دیں۔ مجرمانہ خاموشی سادھ کر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر جاری نبیؐ کی ہجو گوئی کو تقویت نہ پہنچائیں اور باطل کے ہاتھ مضبوط نہ کریں کہ یہی وہ ہستی محترم ہیں کہ جن کے وصال کے بعد حسان بن ثابتؓ یہ رقت آمیز اشعار پڑھتے ہیں۔
کنت السواد لناظری
فعمی علیک الناظر
من شاء بعدک فلیمت
فعلیک کنت حاذر
’’اے پیغمبرؐ! آپؐ میری آنکھ کے لیے پُتلی کا درجہ رکھتے تھے، آپؐ کے پردہ فرمانے سے میری آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں۔ آپؐ کے وصال کے بعد ہمیں بھی دنیا سے رخصت ہوجانا چاہیے کیوں کہ آپؐ کے بعد اب زندگی بے کار ہے۔


نیویارک(نیوزڈیسک)اگر آپ کے جسم کے کسی بھی حصے میں درد ہے تو نمک اور زیتون کے تیل کو مکس کرکے لگانے سے درد غائب ہوجائے گا اور اگلے پانچ سال تک آپ کو اس حصے میں درد نہیں ہوگا۔
اجزاء
نمک 10کھانے کے چمچ
زیتون کا تیل20کھانے کے چمچ
بنانے اور لگانے کا طریقہ
دونوں اجزاءکو مکس کرکے کسی جار میں ڈالیں اور اس طرح بند کردیں کہ اس میں ہوا نہ داخل ہو۔یہ جار دو دن تک پڑا رہنے دیں اور اس کے بعد اپنے جسم پر درد والے حصے پر صبح سویرے اٹھتے ہی لگائیں۔دو سے تین منٹ تک مالش کریں اور اسے چھوڑ دیں۔
لندن(نیوزڈیسک)ہم چینی کا استعمال بکثرت مشروبات اور کھانوں میں کرتے ہیں لیکن اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو جسم میں حیرت انگیز تبدیلیاں ہوتی ہیں،آئیے آپ کو ان کے بارے میں بتاتے ہیں۔
جلد کی خرابی
میٹھی اشیاءجیسے چاکلیٹ،میٹھائیاں،سافٹ ڈرنکس وغیرہ کے استعمال سے جسم میں چینی کا لیول بڑھتارہتا ہے جس کا اثر براہ راست ہماری جلد پر ہوتا ہے اور وہ خراب ہونے لگتی ہے۔اگر جلد پر کوئی دانا یا پھنسی نکلی ہوتو چینی کھانے سے اس کے خراب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی چینی کھانے کی وجہ سے جسم پر دانے بھی زیادہ نکلتے ہیں۔
بڑھاپے میں جلدی
جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ چینی جلد کے لئے نقصان دہ ہے لہذا یہ بھی ہوتا ہے کہ جلد ڈھلکنے لگتی ہے اور بڑھاپے کے آثار جلد ظاہر ہوجاتے ہیں۔نیدر لینڈ کی لیڈن یونیورسٹی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جن لوگوں کے خون میں چینی کی زیادہ مقدار تھی وہ ان لوگوں کی نسبت زیادہ بوڑھے لگ رہے تھے جن کے خون میں چینی کی کم مقدار تھی۔
بے خوابی
چینی کے زیادہ استعمال سے آپ کی نیند کم ہونے لگتی ہے اور آپ بے خوابی کا شکار رہتے ہیں۔2016ءمیں کی گئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ چینی کی زیادہ مقدار کی وجہ سے نیند میں خلل پیدا ہونا ایک معمول بن جاتا ہے۔
دل کی بیماریاں
جس طرح نمک بلڈ پریشر کے لئے نقصان دہ ہے بالکل اسی طرح چینی بھی اپنے ساتھ بہت سے نقصانات لاتی ہے۔جو لوگ چینی کی وجہ سے 25فیصد زیادہ حرارے لیتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
یاداشت میں کمی
ایک تحقیق میں سائنسدانوں نے چوہوں کو فروکٹوس والی غذا دی جس کی وجہ سے ان کی یاداشت پر اثر دیکھا گیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ چینی کھانے سے یاداشت کمزور ہوجاتی ہے۔





نیویارک: 

امریکا کی اکیڈمی آف نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹکس (اے این ڈی) نے متعدد مطالعات کا جائزہ لینے کے بعد ایک بار پھر سبزیوں اور پھلوں کی افادیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں کا استعمال ہر عمر کے تمام لوگوں کے علاوہ ماحول کے لیے بھی بہت مفید ہے۔

امریکی سائنسی جریدے کے تازہ شمارے میں لوگوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ انہیں اپنی روزمرہ غذا میں پھلوں اور سبزیوں کی زیادہ مقدار شامل رکھنی چاہیے۔ اس شمارے میں عمومی صحت سے لے کر مختلف بیماریوں تک میں پھلوں اور سبزیوں کے استعمال پر درجنوں مطالعات کے تجزیئے اور نتائج شامل ہیں۔
ان تمام مطالعات کے تنقیدی جائزے سے ایک بار پھر یہی تصدیق ہوئی ہے کہ موٹاپا کم کرنے کے علاوہ ذیابیطس، دل کی بیماریوں اور کینسر کی بعض اقسام میں سبزیوں اور پھلوں کے زیادہ استعمال سے بہت افاقہ ہوتا ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں والی غذا کا زیادہ استعمال ماحول کے لیے محفوظ بھی ہے۔
مطالعے کے مطابق پھل، سبزیاں اور سبزیوں پر مشتمل پکوان بھی حاملہ اور بچوں کو دودھ پلانے والی خواتین کے لیے محفوظ ہیں جب کہ سبزیجاتی غذائیں کھلاڑیوں سے لے کرعمر رسیدہ افراد تک کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔ دودھ اور دودھ سے بنی غذائی مصنوعات میں ایک اہم غذائی جزو ’’وٹامن بی 12‘‘ کی بہت کم مقدار ہوتی ہے لیکن یہ کمی بھی سبزیوں اور پھلوں سے پوری کی جاسکتی ہے۔
پھلوں اور سبزیوں کا تعلق چونکہ پودوں سے ہے اس لیے وہ اپنی نشوونما کے دوران ہوا کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں اور اسی بناء پر جانوروں کے مقابلے میں یہ بہت کم آلودگی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر (جیسا کہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے) سبزیوں کا زیادہ استعمال ماحول کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔


بدھ، 14 دسمبر، 2016


لاھور: حکیم صوفی جاوادی 

پیاز ہمارے کھانوں میں لازمی جزو کا درجہ رکھتی ہے لیکن عمومی صحت کے معاملے میںاس کے بہت سے فائدے بھی ہیں جن سے عام طور پر ہم واقف ہی نہیں یا پھر انہیں سرے سے نظرانداز کرجاتے ہیں۔

ایسے ہی صرف چند فائدے یہاں پیش کئے جارہے ہیں:
پیاز میں وٹامن سی کے علاوہ ایسے قدرتی کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جو بیماریوں کے خلاف ہمارے جسم کے دفاعی نظام یعنی امیون سسٹم کو مضبوط بناتے ہیں۔
کرمیم کہلانے والی ایک قدرتی دھات بھی پیاز میں موجود ہوتی ہے جس کی بدولت خون میں شکر کی مقدار قابو رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
زخموں میں جلن کم کرنے اور ایڑیوں کی تکلیف سے چھٹکارا پانے میں بھی پیاز کی افادیت صدیوں سے تسلیم شدہ ہے۔





لاہور: دودھ میں لہسن ملا کر تیار کیا جانے والا مشروب آپ کو ایک دو نہیں بلکہ درجنوں بیماریوں اور صحت کے لاتعداد مسائل سے چھٹکارا دلائے گا۔


دودھ میں لہسن ملانے کا خیال شاید آپ کو عجیب سا لگے اور آپ یہ بھی سوچیں کہ ایسا کرنے سے دودھ پھٹ جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوگا بلکہ یہ قدرتی مشروب آپ کی صحت کو بے مثال فائدے پہنچائے گا۔


اجزاء:


لہسن کے جوے: 10 عدد


دودھ: آدھا لیٹر


شکر: 2 سے 3 چائے کے چمچے


پانی: 250 ملی لیٹر


تیاری کا طریقہ:


سب سے پہلے لہسن کے جووں کو اچھی طرح سے کچل کر پیسٹ جیسی شکل میں لے آئیں، ایک برتن میں دودھ اور پانی ڈال کر اس میں لہسن کا پیسٹ اچھی طرح ملا لیں، اب اس برتن کو درمیانی آنچ پر گرم کریں اور گرم کرتے دوران چمچے سے ہلاتے رہیں، یہاں تک کہ سارا آمیزہ ابلنے لگے، اب چولہا بند کرکے اس آمیزے کو چھان لیں اور اس میں شکر ملالیں۔


دھیان رہے کہ لہسن اور دودھ کا یہ شربت آپ کو نیم گرم حالت میں پینا چاہیے۔ اس طریقے پر عمل کرتے ہوئے روزانہ لہسن والے دودھ کا مشروب بنائیں اور دی گئی ہدایات کے مطابق استعمال کریں۔
صحت بخش فوائد:


بظاہر آسانی سے تیار ہوجانے والا یہ مشروب آپ کی صحت کے لیے ان گنت فائدوں کا خزانہ ہے جن میں سے 4 فوائد نمایاں ہیں۔


کھانسی کا علاج: اس مشروب میں تھوڑی سی ہلدی ملاکر پینے سے نہ صرف معمول کی موسمی کھانسی میں افاقہ ہوتا ہے بلکہ وہ کھانسی جو طویل مدت سے لاحق ہو اور جان نہ چھوڑرہی ہو اس کی شدت میں بھی نمایاں طور پر کمی آجاتی ہے۔





کولیسٹرول پر کنٹرول: یہ مشروب خون میں مضر چکنائی (ایل ڈی ایل) کو گھٹاتا ہے جب کہ مفید چکنائی (ایچ ڈی ایل) میں اضافہ کرتا ہے۔ یعنی جسم میں کولیسٹرول کنٹرول کرنے میں بہترین ہے۔


جوڑوں کے درد اور گٹھیا کا علاج: لہسن والے دودھ کا روزانہ استعمال جوڑوں میں سوزش کے علاوہ گٹھیا کے درد میں بھی کمی لاتا ہے۔





دمے کا علاج: دمے سے چھٹکارا پانے کے لیے یہ مشروب پینے کے علاوہ رات کو سونے سے پہلے لہسن کے تین جوے کھائیں جس سے بہت افاقہ ہوگا۔


امراضِ قلب: ایل ڈی ایل کہلانے والی چکنائی (کولیسٹرول) مضرِ صحت ہوتی ہے اور ہائی بلڈ پریشر کے علاوہ دل کی بیماریوں کی وجہ بھی بنتی ہے۔ یہ مشروب ایل ڈی ایل کو کم کرتے ہوئے دل کو تقویت بھی پہنچاتا ہے۔ بہتر نتائج کے لیے لہسن والا دودھ تیار کرنے کے لیے کم چکنائی والا دوھ استعمال کیا جاسکتا ہے۔


نمونیا سے تحفظ: لہسن والے دودھ کا دن میں تین مرتبہ استعمال نمونیا کا بہترین گھریلوعلاج بھی ہے۔


بے خوابی سے بچاؤ: لہسن والا دودھ آپ کو سکون پہنچاتا ہے اور نیند کا باعث بنتے ہوئے بے خوابی سے بھی بچاتا ہے۔





ہاضمے میں مدد: لہسن میں جراثیم کش خصوصیات کے علاوہ بیماریوں کے خلاف ہمارے جسم کو مضبوط بنانے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس میں شامل قدرتی مادّوں کی بدولت معدے میں ہاضمہ کرنے والی رطوبتوں (گیسٹرک جوسز) کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے جس سے نہ صرف ہاضمہ بہتر ہوتا ہے بلکہ ہیضے سے بچنے میں بھی مدد ملتی ہے۔


پھیپھڑوں کی ٹی بی کا علاج: لہسن میں سلفر کی موجودگی اسے ٹی بی کے علاج میں اکسیر بناتی ہے۔ پھیپھڑوں کی ٹی بی سے چھٹکارا پانے کے لیے لہسن اور دودھ کا مشروب قدرے مختلف انداز سے بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے لہسن کا ایک گرام پیسٹ، 240 ملی لیٹر دودھ اور ایک لیٹر پانی کو آپس میں ملاکر ہلکی آنچ پر ابالیے، یہاں تک کہ یہ پورا آمیزہ اپنی ابتدائی مقدار کے مقابلے میں ایک چوتھائی (¼) رہ جائے۔ اس مشروب کو پورے دن میں تین مرتبہ استعمال کرتے ہوئے ختم کریں۔





یرقان/ پیلیا سے مقابلہ: لہسن اور دودھ کا یہ مشروب پورے ہفتے استعمال کرنے سے یرقان/ پیلیا/ جوائنڈس بھی ختم ہوجاتا ہے کیونکہ لہسن میں جسم سے زہریلے مادے ختم کرنے کی زبردست صلاحیت ہوتی ہے جو یرقان کا قلع قمع کرنے میں کارآمد ہے۔ اس کے علاوہ لہسن میں شامل سلفر بھی جگر کو تقویت پہنچاتے ہوئے یرقان کی شدت میں کمی لاتا ہے۔ مزید یہ کہ لہسن میں سیلینیئم اور ’’ایلیسین‘‘ نامی مادّہ بھی پائے جاتے ہیں جو دونوں مل کر جگر سے صحت بخش رطوبتوں کا اخراج بڑھانے میں مدد کرتے ہیں۔ ایلیسین بذاتِ خود بہت مفید ہے کیونکہ یہ ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور کینسر تک کا علاج کرنے میں بے حد مفید ہے۔


اعصابی درد میں کمی: شیاٹیکا ایک خاص طرح کا اعصابی درد ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے شروع ہوکر ٹانگوں تک پہنچتا ہے اور شدید اذیت کی وجہ بنتا ہے۔ لہسن والے دودھ کا باقاعدہ استعمال شیاٹیکا میں بھی کمی کا باعث بنتا ہے۔







لیموں، نمک اور سیاہ مرچ کو ملاکر استعمال کرنے سے ایسا فائدہ ہوگا کہ آپ باربار یہ نسخہ آزمائیں گے نیویارک(نیوزڈیسک) لیموں،نمک اور سیا...